شمائلہ اسلم
اسکینڈے نیوین نیوز ایجنسی
بیورو چیف پاکستان
پنجابی موسیقی کے مداحوں کے لیے یہ حیرت کا لمحہ تھا جب سدھو موسے والا
کے آفیشل انسٹاگرام اکاؤنٹ سے اعلان کیا گیا کہ 2026 میں ان کا عالمی
کنسرٹ ٹور “Signed to God” کے نام سے شروع ہونے جا رہا ہے—
حالانکہ سدھو موسے والا کو مئی 2022 میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا
یہ ٹور ہندوستانی پنجاب، لندن، ٹورنٹو اور لاس اینجلس سمیت مختلف شہروں
میں ہوگا، جہاں سدھو کی آواز اور موجودگی کو AI اور ہولوگرام ٹیکنالوجی کی مدد
سے اسٹیج پر “زندہ” کیا جائے گا۔ مگر اس جدت نے مداحوں اور ناقدین کو
ایک نازک سوال پر سوچنے پر مجبور کر دیا ہے: کیا یہ واقعی سدھو کی مرضی کے مطابق ہے؟
سدھو موسے والا ایک خود مختار فنکار تھے جنہوں نے 2020 میں اپنا ذاتی
میوزک لیبل “5911” قائم کیا۔ وہ اپنے گانوں، انداز اور پیغام پر مکمل
تخلیقی اختیار رکھتے تھے۔ اب جبکہ وہ خود موجود نہیں، تو AI پر مبنی ان کی نقل
کیا ان کی اصل شخصیت کا مکمل اظہار کر سکتی ہے؟ یہ ٹور نہ صرف ان کی
آواز، چہرے اور حرکات کو نقل کرے گا بلکہ ان کی روحانی موجودگی اور
احساسات کو بھی “پروگرام” کرنے کی کوشش کرے گا۔
فن صرف گانے یا چہرے کا نام نہیں ہوتا۔ سدھو کے گانے سیاسی شعور،
دیسی شناخت، اور حاشیے پر کھڑے طبقوں کی آواز تھے۔ وہ ایک ایسے
شخص تھے جو شہرت اور خطرے کے درمیان زندگی گزار رہے تھے۔ AI
ان جذبات، تجربات اور سیاسی حساسیت کو کیسے نقل کر سکتا ہے؟
یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایسے بعدازمرگ منصوبے اصل میں مداحوں کے
لیے ہوتے ہیں یا مالی فائدے کے لیے؟ سدھو موسے والا کی موت ایک
المناک اور سیاسی واقعہ تھا، اور ان کی وراثت کو مصنوعی انداز میں پیش
کرنا، شاید ان کے نظریات کے برعکس ہو۔
“Signed to God” تکنیکی اعتبار سے بے مثال ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں
سوچنا ہوگا کہ کیا ہم فنکاروں کو خراجِ عقیدت دے رہے ہیں یا انہیں ہمیشہ کے لیے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں؟
سدھو نے ایک بار کہا تھا: “لیجنڈز کبھی نہیں مرتے”۔ شاید وہ ٹھیک کہتے
تھے۔ لیکن لیجنڈز کو سکون بھی تو ملنا چاہیے—نہ کہ ایک ڈیجیٹل زندگی جو ہر
کسی کے لیے فائدہ مند ہو، سوائے خود اس فنکار کے۔
