رفعت کوثر
سکینڈی نیوین نیوز ایجنسی
فن لینڈ
یہ منصوبہ اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاتز نے تجویز کیا ہے، جس میں تقریباً 6 لاکھ فلسطینیوں کو جنوبی غزہ میں رفح کے ملبے پر قائم کیے جانے والے ایک شہر میں منتقل کرنے کی تجویز شامل ہے
اسرائیل کے سابق وزیرِ اعظم ایہود اولمرت نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیر دفاع کی جانب سے تجویز کردہ “انسانی شہر” یا جسے “رفح منصوبہ” کہا جاتا ہے، دراصل فلسطینیوں کے لیے ایک حراستی کیمپ ہو گا، اور انھیں زبردستی وہاں داخل کرنا “نسلی تطہیر” کے مترادف ہو گا۔
اولمرت نے برطانوی اخبار “گارڈین” کو دیے گئے بیان میں کہا کہ اسرائیل پہلے ہی غزہ اور مغربی کنارے میں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے، اور اس نوعیت کا کوئی کیمپ تعمیر کرنا ان خلاف ورزیوں میں خطرناک اضافہ ہو گا۔
منصوبے سے متعلق سوال پر اولمرت نے کہا “یہ ایک حراستی کیمپ ہے… مجھے افسوس ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا “اگر فلسطینیوں کو اس نئے انسانی شہر میں منتقل کیا گیا تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نسلی تطہیر کا ایک حصہ ہے … کیونکہ لاکھوں افراد کے لیے کیمپ بنانے کی ہر کوشش کا یہی نا گزیر مطلب نکلتا ہے۔”
ایک بات جو قابلِ اعتبار نہیں
اولمرت نے وضاحت کی کہ موجودہ اسرائیلی فوجی کارروائی کو نسلی تطہیر نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ “جنگ سے بچانے کے لیے شہریوں کا انخلا بین الاقوامی قانون کے مطابق قانونی ہے”۔ انھوں نے مزید کہا کہ “فلسطینی اُن علاقوں میں واپس چلے گئے ہیں جہاں سے فوجی کارروائیاں ختم ہو چکی ہیں”۔
تاہم، ان کا کہنا تھا کہ کئی مہینوں سے اسرائیلی وزرا کی جانب سے غزہ کو “صاف” کرنے اور وہاں اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کی کھلی باتوں کے بعد، حکومت کا یہ دعویٰ کہ “انسانی شہر” فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے ہے، بالکل ناقابلِ اعتبار ہو چکا ہے۔
