تحریر : اسامہ زاہد
“امریکہ سے دوستی ،ملک سے دشمنی”
دنیا کی سیاست میں کوئی تعلق ابدی نہیں ہوتا — نہ دوستی، نہ دشمنی۔ مگر کچھ رویے اور فیصلے ایسے ہوتے ہیں جو وقت کی دھول میں بھی اپنا اثر قائم رکھتے ہیں۔ جب ہم امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ڈالتے ہیں تو تاریخ کا ہر ورق گواہی دیتا ہے کہ یہ تعلق محض ظاہری مسکراہٹوں، امدادی پیکیجوں اور سفارتی بیانات پر قائم نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایسی تلخ حقیقتیں چھپی ہیں جنہیں نظرانداز کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
امریکہ نے ہمیشہ عالمی بالادستی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ان اقوام کو نشانہ بنایا ہے جو آزاد سوچ، خودمختار فیصلوں اور نظریاتی تشخص کے ساتھ جینا چاہتی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک، جو نہ صرف ایٹمی طاقت ہیں بلکہ اسلامی دنیا میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ سوچ زیادہ ناقابل برداشت ہے۔ اس لیے کبھی معیشت کو دباؤ میں لا کر، کبھی عسکری پالیسیاں تھوپ کر، اور کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہماری زمین کو میدانِ جنگ بنا کر، امریکہ نے ہماری خودمختاری کو مسلسل چیلنج کیا۔
افغانستان کی جنگ کو ہماری سرزمین تک کھینچ لانا، لاکھوں بے گناہ شہریوں کی قربانیاں، اور معاشی زوال — یہ سب اس “دوستی” کی قیمت تھی جو ہمیں تھالی میں زہر دے کر پیش کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی اس قیمت کا حساب کیا؟ یا ہم اب بھی “ڈومور” کے فریب میں مبتلا ہیں؟
امریکہ کی دشمنی صرف فوجی یا معاشی نہیں، یہ نظریاتی بھی ہے۔ ہمارے نصاب میں ترمیم، میڈیا پر اثراندازی، ثقافتی یلغار، اور سوشل میڈیا کے ذریعے ذہنوں کو مسخ کرنا — یہ سب اس خاموش جنگ کے ہتھیار ہیں جو بندوق کی گولی سے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ ایک نسل اگر دشمن کے ہتھیاروں سے مر جائے، تو دوسری اٹھ سکتی ہے۔ مگر اگر ایک نسل سوچنے کی صلاحیت کھو دے، اپنی پہچان بھول جائے، تو پھر غلامی صرف جسموں کی نہیں، روحوں کی بھی ہو جاتی ہے۔
ایسے میں ہمیں دشمن کو صرف پہچاننا نہیں، بلکہ سمجھنا بھی ہوگا۔ دشمنی کا جواب صرف نعرے سے نہیں، بصیرت سے دیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی، تعلیمی نظام، اور میڈیا بیانیے کو خودمختار بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو وہ اعتماد، وہ علم، اور وہ نظریاتی بنیاد دینی ہوگی کہ وہ کسی امریکی بیانیے کے سامنے جھکنے کے بجائے سوال اٹھا سکیں۔
یاد رکھیں، دشمنی اگر چہرہ چھپا لے تو پہچان مزید ضروری ہو جاتی ہے۔ اور جو قوم دشمن کو دوست سمجھ بیٹھے، وہ اپنے زخموں کو خود ہی تازہ رکھتی ہے
