شمائلہ اسلم
اسکینڈے نیوین نیوز ایجنسی
بیورو چیف پاکستان
رہا شدہ فلسطینی حامی رہنما کا ٹرمپ انتظامیہ پر 20 ملین ڈالر ہرجانے کا دعویٰ
خلیل: “یہ احتساب کی جانب پہلا قدم ہے”
واشنگٹن — امریکہ میں فلسطینی حامی مظاہروں کے نمایاں رہنما محمود خلیل
نے جمعرات کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے خلاف 20
ملین ڈالر کا ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا۔
خلیل کا کہنا ہے کہ ان کی گرفتاری اور حراست غیر قانونی اور سیاسی انتقام کا حصہ تھی۔
خلیل، جو امریکہ کے قانونی مستقل رہائشی ہیں، مارچ میں امیگریشن حکام کے
ہاتھوں گرفتار کیے گئے تھے۔ وہ ایک امریکی شہری خاتون کے شوہر اور ایک
نومولود بچے کے والد ہیں۔ گزشتہ ماہ انہیں ایک وفاقی جج کے حکم پر لوزیانا
کے امیگریشن حراستی مرکز سے ضمانت پر رہا کیا گیا۔
مرکز برائے آئینی حقوق کے مطابق، خلیل کے مقدمے میں مؤقف اختیار کیا
گیا ہے کہ ان کی گرفتاری، حراست اور ملک بدری کی کوشش ایک منظم اور
غیر قانونی منصوبہ تھی، جس نے خلیل اور ان کے خاندان کو شدید خوف و
ہراس میں مبتلا کر دیا۔ دعویٰ میں کہا گیا ہے کہ خلیل کو جذباتی اذیت، مالی
پریشانیوں اور ساکھ کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
کولمبیا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل خلیل نے امریکہ میں اسرائیل کی غزہ
پالیسی کے خلاف طلبہ مظاہروں میں سرگرم کردار ادا کیا، جس کے باعث
ٹرمپ انتظامیہ نے انہیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔
خلیل کا کہنا ہے، “یہ مقدمہ احتساب کی جانب پہلا قدم ہے۔ کوئی چیز میرے
وہ 104 دن واپس نہیں لا سکتی جو میں قید میں گزارے، نہ ہی وہ لمحے جب
میں اپنی بیوی اور نومولود بچے کے ساتھ نہیں تھا۔” انہوں نے مزید کہا کہ
سیاسی انتقام اور اختیار کے غلط استعمال کا حساب ہونا چاہیے۔
خلیل نے اپنی حراست کو “خوفناک تجربہ” قرار دیا، جہاں انہیں 70 سے
زائد افراد کے ساتھ ایک بڑے ہال میں رکھا گیا۔ ان کے بقول، وہاں کوئی
پرائیویسی نہ تھی، روشنی ہمیشہ روشن رہتی اور مسلسل نگرانی ہوتی تھی۔
امریکی محکمہ داخلہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری ٹرائیسیا میک لافلن نے کہا کہ ٹرمپ
انتظامیہ نے خلیل کے خلاف کارروائی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے
کی، جیسا کہ ان افراد کے خلاف کیا جاتا ہے جو تشدد، دہشت گردی یا نفرت انگیزی میں ملوث ہوں۔
ٹرمپ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ خلیل کی امریکہ میں موجودگی ممکنہ طور پر
امریکہ کی خارجہ پالیسی کے لیے خطرہ بن سکتی تھی، اس لیے ان کی ملک بدری ضروری سمجھی گئی۔
خلیل کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب ٹرمپ نے غیر ملکی طلبہ اور
اعلیٰ تعلیمی اداروں پر دباؤ بڑھانے کی مہم شروع کی۔ کولمبیا، ہارورڈ اور دیگر
جامعات کے طلبہ کو مالی امداد میں کمی اور ویزا پالیسیوں میں سختی کا سامنا کرنا پڑا۔
خلیل کی قانونی ٹیم کو اندیشہ ہے کہ انہیں رہائی کے بعد بھی سلامتی کے
خدشات لاحق ہو سکتے ہیں، اور ان کی حفاظت کے لیے اقدامات زیر غور ہیں۔
