اسکینڈے نیوین نیوز اردو

تھر وہ صحرا جس نے اپنی روح کھو دی!

شمائلہ اسلم
اسکینڈے نیوین نیوز ایجنسی
بیورو چیف پاکستان

تھرپارکر: کبھی اونٹوں کی گزرگاہ اور ثقافت کی سرزمین کہلانے والا تھر، آج سرمایہ دارانہ ترقی کے بوجھ تلے اپنی شناخت، رشتہ، اور روح کھو رہا ہے۔ کوئلہ، سڑکیں، اور جدید منصوبے اس صحرا کو سہولت دینے کے بجائے، اس کی فطری ترتیب، روایات، اور مقامی معیشت کو نگل رہے ہیں۔

ثقافتی تباہی اور معاشی بے دخلی:

تھر میں سڑکیں تو بن گئیں، مگر ان سڑکوں نے روایتی راستہ شناسی جیسے قیمتی ہنر کو ختم کر دیا۔ اونٹوں کی دیکھ بھال اور مویشی پالنے کی معیشت، جو تھری زندگی کی بنیاد تھی، نظرانداز اور زوال پذیر ہو چکی ہے۔ 80 لاکھ مویشیوں کے لیے محض 40 ویٹرنری ملازمین ہیں، جب کہ علاج بھی اکثر عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔

کاغذی ترقی، عملی ناکامی:

سرکاری دعوے، R.O پلانٹس، اور عمارتوں پر نئی تختیاں صرف دکھاوے ہیں، کیونکہ انفراسٹرکچر ناکام، خدمات ناقابل رسائی، اور نظام بے حس ہے۔ تھر میں آئسومورفک ممکری (Isomorphic Mimicry) کی مثالیں عام ہیں — یعنی ایسی “ترقی” جو صرف دکھاوے کے لیے ہو۔

زمین، شناخت، اور انصاف کا بحران:

تھر کے بیشتر باشندوں کے پاس زمین کے مالکانہ حقوق کے ثبوت موجود نہیں، جس کی وجہ سے وہ قانونی قبضوں، ہاؤسنگ اسکیموں، اور تنازعات کا شکار ہیں۔ مقامی وکلاء کے مطابق زمینوں کا نہ تو باقاعدہ سروے کیا گیا، نہ ہی عوامی رضامندی لی جاتی ہے۔

کوئلہ، تباہی، اور استحصال:

کوئلے کی کان کنی نے تھر کو “ترقی” کے نام پر ماحولیاتی بربادی، بے دخلی، اور پانی کی قلت کے مستقل بحران میں جھونک دیا ہے۔ R.O پلانٹس جیسے ناکام منصوبے پانی کی بنیادی ضرورت پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

انسانی حقوق کی نئی جہت:

تھر میں انسانی حقوق کی پامالی صرف ریاستی جبر نہیں بلکہ ساختی استحصال کی شکل میں سامنے آتی ہے—جہاں مقامی لوگوں کو ان کی زمین، پانی، اور جانوروں سے محروم کر کے، ان کے وجود پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔

Read Previous

شیخوپورہ غیر قانونی گردے ٹرانسپلانٹ پر 8 گرفتار

Read Next

شہبازشریف کے بیٹے ہر سکنڈل میں ہی کیوں نکلتے ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Most Popular