اسکینڈے نیوین نیوز اردو

ارمغان کا عالمی سائبر کرائم نیٹ ورک بے نقاب

شمائلہ اسلم
اسکینڈے نیوین نیوز ایجنسی
بیورو چیف پاکستان


نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) نے مصطفیٰ عامر قتل

کیس کے مرکزی ملزم ارمغان کامران کے خلاف ایک اور مقدمے میں

عبوری چارج شیٹ عدالت میں جمع کرا دی ہے، جس میں اس پر غیرقانونی

کال سینٹر چلانے، مالیاتی فراڈ اور کرپٹو کرنسی کی منی لانڈرنگ جیسے سنگین

الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ تفتیشی افسر عامر علی کھوسو نے یہ رپورٹ

جوڈیشل مجسٹریٹ (جنوب) عبدالسلام کلہورو کے روبرو پیش کی۔

چالان کے مطابق، ارمغان نے کراچی کے ڈی ایچ اے کے مختلف

علاقوں میں واقع دفاتر سے جعلی بین الاقوامی کال سینٹرز قائم کیے، جہاں وہ

اسپوفنگ، فشنگ، شناختی معلومات چرانے اور مالیاتی فراڈ میں ملوث تھا۔

وہ اور اس کے ساتھی، خود کو امریکی اداروں کے نمائندے ظاہر کر کے،

بیرون ملک متاثرین سے ذاتی اور مالی معلومات حاصل کرتے تھے۔ اس

مقصد کے لیے VoIP اور VPN سافٹ ویئر کا استعمال کیا جاتا تھا۔

حاصل کردہ معلومات کو ایک خاص سافٹ ویئر (OET) میں محفوظ کر کے

Stripe اور Braintree جیسے آن لائن پلیٹ فارمز پر غیر مجاز لین دین کے

لیے استعمال کیا جاتا۔

مالی فوائد کو کرپٹو کرنسی میں تبدیل کرنے کے لیے BitGo، Binance،

Paxful اور Coinbase جیسے ڈیجیٹل والٹس استعمال کیے جاتے، جنہیں

بعدازاں P2P پلیٹ فارمز اور ایسے مقامی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی

لانڈر کیا جاتا جو ملزم کے رشتہ داروں اور گھریلو ملازمین کے نام پر کھولے گئے تھے۔

چارج شیٹ میں بتایا گیا کہ ارمغان نے AIDA Communications اور

AMA Universal کے ناموں سے کال سینٹرز چلائے اور ڈارک ویب

کے ذریعے منشیات اور ڈیٹا کی خریداری کا اعتراف بھی کیا۔

ملزم نے جعلی نوکریوں کے اشتہارات Rozee.pk اور Mustakbil جیسے

جاب پورٹلز پر دے کر ایجنٹس بھرتی کیے، جنہیں متاثرین کو لوٹنے کے لیے

مخصوص اسکرپٹس کی تربیت دی جاتی تھی اور ادائیگیاں ناقابل سراغ ذرائع سے کی جاتیں۔

ڈیجیٹل فارنزک تجزیے سے سنگین شواہد ملے، جن میں مجرمانہ اسکرپٹس،

متاثرین کے ڈیٹا لاگز اور مالیاتی ریکارڈ شامل تھے۔ کئی لیپ ٹاپس اور

موبائل فونز سے کال اسپوفنگ اور ٹریڈ مارک فراڈ کے ثبوت بھی برآمد

ہوئے۔ مزید تحقیقات سے پتا چلا کہ جعلی کمپنیوں (LLCs)، غیرقانونی کرپٹو

سرگرمیوں اور دھوکہ دہی سے حاصل رقم کے ذریعے جوا کھیلنے کی بھی

تصدیق ہوئی ہے۔

تفتیشی افسر کھوسو نے بیان دیا کہ گھریلو ملازمین نے تصدیق کی کہ ان کے

بینک اکاؤنٹس اور موبائل سمز کو ان کی اجازت کے بغیر فراڈ اور اسپوفنگ

کے لیے استعمال کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں والٹ سروس فراہم کرنے والوں سے جزوی ڈیٹا

موصول ہوا ہے، جبکہ ایس ای سی پی، پی ٹی اے اور دیگر اداروں کو بھیجے

گئے خطوط کے جوابات تاحال موصول نہیں ہوئے۔

کھوسو کے مطابق، 63 لیپ ٹاپس کی ڈیجیٹل فارنزک رپورٹ میں اسپوفنگ

سافٹ ویئر، وی پی این، فشنگ اسکرپٹس اور متاثرین کا ڈیٹا پایا گیا۔

گواہوں اور بھرتی کیے گئے افراد کے بیانات سے تصدیق ہوئی کہ انہیں جعلی

اشتہارات کے ذریعے بھرتی کیا گیا اور اسکرپٹس کی تربیت دی گئی۔

ملزم نے اپنے اعترافی بیان میں اعتراف کیا کہ وہ ڈیجیٹل فراڈ، کرپٹو کرنسی

کے ذریعے منی لانڈرنگ اور ڈارک ویب سے منشیات خریدنے میں ملوث

رہا۔ چالان میں یہ بھی کہا گیا کہ بینک اور والٹ کے ریکارڈز نے ان

سرگرمیوں کو ملزم کے ای میل اور والٹ آئی ڈیز سے جوڑا۔

پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ سے واٹس ایپ چیٹس اور وی پی

این سافٹ ویئر کے استعمال کی تصدیق ہوئی، جو اسکیم کے اہم شواہد کے

طور پر سامنے آئے۔ ملازمین نے بتایا کہ ان کے اکاؤنٹس کو دھوکہ دہی سے

حاصل شدہ رقم کی ترسیل اور لین دین کے لیے استعمال کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ارمغان BitGo، Binance، Paxful، NoOnes،

Coinbase اور Exodus جیسے متعدد والٹس استعمال کرتا تھا۔ ان کے

ذریعے وہ کال سینٹر کے متاثرین سے دھوکے سے حاصل رقم کو کرپٹو میں

تبدیل کرتا رہا۔

اس نے اعتراف کیا کہ BitGo کے ذریعے اس نے ڈارک ویب سے

منشیات (ویڈ) خریدی۔ BitGo کے ریکارڈ سے Aida

Communications کے نام سے ایک فعال اکاؤنٹ کا پتا چلا، جس میں

بیلنس اور لین دین کی مکمل تفصیلات موجود تھیں۔ Paxful کے ذریعے

بھی خرید و فروخت کی جاتی تھی، جب کہ ‘coinfactorypk’ کے نام سے

ایک اور فعال اکاؤنٹ ملا، جو ارمغان کے ای میل اور فون نمبر سے منسلک

تھا۔

Binance اور Coinbase کے مکمل ریکارڈ کا انتظار اب بھی جاری ہے۔

“تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ ارمغان کامران نے ایک بین الاقوامی سائبر

کرائم نیٹ ورک کی قیادت کی، جس میں مالی فراڈ، ڈیٹا چوری، جعل سازی،

غیرقانونی فنڈ ٹرانسفر، شناختی معلومات کا Xbox استعمال، کرپٹو منی

لانڈرنگ اور عالمی سطح پر اسکیم سازی شامل ہے۔”

مزید کہا گیا:

“فارنزک شواہد، اعترافی بیانات اور مالیاتی ریکارڈز، سائبر کرائم قوانین اور

تعزیرات پاکستان کے تحت مالی جرائم کے الزامات کی مکمل تصدیق کرتے

ہیں۔ ڈیجیٹل والٹس، ڈارک ویب سرگرمیوں اور شناخت کے غلط

استعمال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک مکمل منصوبہ بند اور منظم فراڈ تھا۔”

تفتیشی افسر نے عدالت سے استدعا کی کہ عبوری چالان قبول کیا جائے اور

حتمی رپورٹ جمع کرانے کے لیے مزید مہلت دی جائے، کیونکہ کچھ مزید

دستاویزی، زبانی اور ڈیجیٹل شواہد اکٹھے کیے جانا باقی ہیں۔

Read Previous

یاسمین طاہر انتقال کر گئیں، ریڈیو پاکستان کی آواز خاموش

Read Next

سیزفائر کے بعد بھی سویڈا میں جھڑپیں جاری

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Most Popular