شمائلہ اسلم
اسکینڈے نیوین نیوز ایجنسی
بیورو چیف پاکستان
برلن: جرمنی نے اعلان کیا ہے کہ اس نے 81 افغان مردوں کو ملک بدر کر
دیا ہے جن پر جرائم میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ یہ افراد ایک خصوصی
پرواز کے ذریعے طالبان کے زیرِ انتظام افغانستان واپس بھیجے گئے۔
داخلی امور کی وزارت کے مطابق یہ تمام افراد جرمن عدالتی نظام کے تحت
سزا یافتہ تھے، اور ملک بدری کے احکامات پہلے ہی جاری ہو چکے تھے۔
وزیر داخلہ الیگزنڈر ڈوبرنڈٹ نے کہا کہ جرمنی اپنی ہجرت پالیسی میں تبدیلی
لا رہا ہے، اور مستقبل میں بھی ایسے اقدامات جاری رہیں گے۔ ان کا کہنا
تھا کہ “سنگین جرائم میں ملوث افراد کو جرمنی میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ اس عمل میں قطر نے معاونت فراہم کی، جبکہ طالبان
سے براہِ راست نہیں بلکہ بالواسطہ رابطہ رکھا گیا۔
یاد رہے کہ طالبان کی حکومت کے بعد جرمنی نے 2021 میں افغانستان کی
طرف ملک بدریاں معطل کر دی تھیں، تاہم اب یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے
کہا ہے کہ افغانستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں،
جن میں جبری گمشدگیاں، تشدد اور غیر عدالتی قتل شامل ہیں۔
چانسلر فریڈرک میرز نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ جرمنی اب ہنر مند
مہاجرین کو ترجیح دے گا جبکہ جرائم پیشہ یا غیر قانونی مہاجرین کے خلاف
سخت کارروائی کی جائے گی۔
ان کی حکومت نے ہجرت سے متعلق پالیسی میں اصلاحات کا آغاز کیا ہے
جس میں سرحدوں پر سخت نگرانی اور پناہ گزین خاندانوں کے دوبارہ ملاپ پر
پابندیاں شامل ہیں۔
اسی سلسلے میں جنوبی جرمنی میں ایک اجلاس بھی منعقد ہوا جہاں فرانس،
آسٹریا، ڈنمارک، چیک ریپبلک اور پولینڈ کے وزرائے داخلہ نے شرکت کی
اور یورپ میں ہجرت پالیسی کو مزید سخت بنانے پر تبادلہ خیال کیا۔
یہ پیشرفت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب جرمنی میں دائیں بازو کی جماعت
AfD کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، اور فروری میں اسے 20 فیصد سے زائد ووٹ ملے۔
ملک بدریوں کے دائرے کو وسعت دینے کے لیے اب شام کے ساتھ بھی
مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ وہاں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد
ملک اسلام پسند گروپوں کے کنٹرول میں آ چکا ہے، جن کے مبینہ روابط القاعدہ سے بھی رہے ہیں۔
