اسکینڈے نیوین نیوز اردو

بی ایل اے کی سرگرمیاں، اتحاد اور حالیہ حملے تشویشناک

شمائلہ اسلم
اسکینڈے نیوین نیوز ایجنسی
بیورو چیف پاکستان


بلوچ لبریشن آرمی: تاریخ، قیادت، حملے اور حالیہ شدت

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) پہلی بار 1970 کی دہائی کے اوائل میں سامنے آئی، جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور میں بلوچستان میں پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع ہوئی۔

تاہم، فوجی آمر ضیاء الحق کے اقتدار سنبھالنے اور بلوچ قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے بعد، مسلح بغاوت ختم ہو گئی اور بی ایل اے پس منظر میں چلی گئی۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں، نواب خیر بخش مری کے جسٹس نواز مری کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار ہونے کے بعد، 2000 سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں حملے شروع ہوئے۔

یہ حملے نہ صرف بڑھتے گئے بلکہ بلوچستان کے مختلف علاقوں تک پھیل گئے۔

ان حملوں کی زیادہ تر ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کی۔

2006 میں پاکستان کی حکومت نے بی ایل اے کو ایک ممنوعہ تنظیم قرار دیا۔

نواب خیر بخش مری کے بیٹے، نوابزادہ بلاخ مری کو تنظیم کا سربراہ تصور کیا گیا۔ نومبر 2007 میں ان کی موت کی خبریں آئیں اور تنظیم نے دعویٰ کیا کہ وہ افغان سرحد پر جھڑپ میں مارے گئے۔

بعد ازاں پاکستانی حکام نے ان کے برطانیہ میں مقیم بھائی نوابزادہ ہیربیئر مری کو بی ایل اے کا نیا رہنما قرار دیا، لیکن انہوں نے کسی عسکری تنظیم سے تعلق کی تردید کی۔

اس کے بعد اسلم بلوچ کا نام بطور مرکزی کمانڈر ابھرا۔

رپورٹس کے مطابق، اسلم بلوچ کو سیکیورٹی آپریشن میں زخمی ہونے کے بعد علاج کے لیے بھارت جانا پڑا، جہاں تنظیم میں اختلافات پیدا ہوئے۔

صحت یابی کے بعد، وہ بلوچستان اور افغانستان میں دوبارہ متحرک ہو گئے۔

اسلم بلوچ کے زیر اثر بی ایل اے کے ایک دھڑے نے خودکش حملے (فدائیان حملے) شروع کیے۔

تنظیم سی پیک اور چینی مفادات کے خلاف حملے کرتی رہی ہے۔

سلیم بلوچ عرف آچو قندھار میں خودکش حملے میں مارا گیا۔

بی ایل اے نے گوادر ہوٹل حملے میں ملوث افراد کی تصاویر اور ویڈیو بھی جاری کی۔


دیگر گروہوں سے اتحاد

نومبر 2017 میں بی ایل اے نے دیگر بلوچ گروہوں کے اتحاد بی آر اے ایس (بلوچ راجی آجوئی سنگھر) میں شمولیت اختیار کی۔

اس اتحاد میں بی ایل اے، بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور بلوچ ریپبلکن گارڈز (بی آر جی) شامل ہیں۔

ان کے حملے سی پیک سے جڑے علاقوں پر مرکوز رہے ہیں۔


چند نمایاں حملے جن کی ذمہ داری بی آر اے ایس نے قبول کی:

دسمبر 2018: تربت میں فورسز کے قافلے پر حملہ

فروری 2024: تربت اور پنجگور کے درمیان فورسز پر حملہ

اپریل: اورماڑہ میں بسوں سے نیوی اہلکاروں کو اتار کر قتل

2024 میں، 358 سیکیورٹی اہلکار دہشت گرد حملوں میں شہید ہوئے، جبکہ

139 شدت پسند مارے گئے۔


11 مارچ 2025

بلوچ لبریشن آرمی نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی ٹرین کو بولان پاس میں

روکا اور مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔

ذرائع کے مطابق ٹرین کو سرنگ میں روک کر کارروائی کی گئی۔

بی ایل اے نے پچھلے کچھ برسوں میں شدت اور دائرہ کار دونوں میں اضافہ

کیا ہے، خاص طور پر اس کے ذیلی گروپ مجبور بریگیڈ کے ذریعے۔


10 جولائی 2025

کوئٹہ میں والد کے جنازے میں شرکت کے لیے جا رہے دو بھائیوں کو اغوا

کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔

واقعے نے واضح کر دیا کہ دشمن عناصر مذہبی و سماجی روایات کو بھی

روندنے سے باز نہیں آ رہے۔

عینی شاہد کے مطابق، بی ایل اے کے دہشت گردوں نے 12 مسافروں

کے شناختی کارڈ چیک کیے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو قتل کر دیا۔

Read Previous

پیپلز پارٹی وفد کی فضل الرحمان سے ملاقات، سینیٹ پر مشاورت

Read Next

اسرائیل: غزہ میں پانچ فوجیوں کی ہلاکت پر اظہار مسرت کرنے والا اسرائیلی صحافی گرفتار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Most Popular